Skip to main content

Posts

وندے ماترم لازمی۔۔۔بھارت کہ ہر شہری کو پڑھنا ہو گا۔

میں تمہاری ماں کو سراہتا ہوں مسلمان بھی پڑھے گا اور ہندو تو اس کو اپنا قومی اور مذہبی فریضہ سمجھ کر پڑھے گا۔ وندے ماترم کا ترجمہ ہے۔۔جب سے ہندو مذبہی جنونی آے ہیں۔ مسلمانوں پر تشدد بڑھتا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کو وندے ماترم پڑھنے پر مجبور کر دہشت گردی سے کم نہیں۔ اب بھارتی عدالتیں بھی اس ۔۔ میدان میں آ گئی ہیں وندے ماترم کیا ہے؟ وندے ماترم ایک بنگالی شاعر و ادیب بنکم چندر چٹرجی کی ۱۸۷۶ء میں لکھی نظم ہے۔ نظم میں ملک کو ایک دیوی خیال کرتے ہوئے جہاں اس کی تعریف و توصیف بیان کی گئی ہے‘ وہیں اس کی پرستش کرتے ہوئے اسے ’درگا‘ اور ’کالی‘ قرا ردیا گیا ہے اور دشمن کو نیست و نابود کرنے کے عزائم بھی ظاہر کر دیے گئے ہیں۔ اپنے مشمولات کے لحاظ سے بنکم چندر چٹرجی کی یہ نظم یوں بھی خالص مذہبی حیثیت کی حامل ہے جسے دیگر مذاہب کے لوگ کسی بھی صورت میں نہیں پڑھ سکتے اور اگر اس کے پس منظر کی مناسبت سے بات کی جائے تو مذکورہ نظم سے نہ صرف فرقہ پرستی بلکہ وطن دشمنی کی بھی بو آتی ہے۔ہندوستان جو پہلے ہی فرقہ پرستی اور انتشار کا شکار ہے اس فیصلے سے مزید مسائل کا شکار ہو گا۔

جہالت کی انتہا۔۔زیادتی کا بدلہ۔۔بہن سے زیادتی

جہالت کی انتہا۔۔زیادتی کا بدلہ۔۔بہن سے زیادتی ملتان میں پنچایت کا انوکھا فیصلہ۔۔۔زیادتی کسی نے کی اور اس کا بدلہ بہن دے۔۔ مختاراں مائی کی کیس کی یاد تازہ ہوگئی ۔   لگتا ہے ابھی معاشرے  کو بہت زیادہ بدلنے کی ضرورت ہے کیا آپ اس بات سے متفق ہیں؟؟؟؟

حکومت نے گھتنے تیک دیئے

حکومت نے گھتنے تیک دیئے آئل ٹینکر ایسوسیشن  نے اپنے تمام مطالبات منوا لیے۔ ٹینکرز ایسوسیشن نے ٹنکرز کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے کا وعدہ کر لیا

نوملود بچے اغوا ہو رہے ہیں۔

  نوملود بچے اغوا ہو رہے ہیں۔ اسپتال انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے ماں نو ماہ سے پریشان حال کوئی بات نہیں تم بیمار بچہ لے لو۔۔۔کسی اور کا

غلطی یا مستی۔۔۔ایک بڑے ٹی وی چینل نے پاک چین جنگ کروانے کی ٹھان لی

گزرا زمانہ اچھا تھا۔ جب بچے بڑوں کو، بڑا سمجھتے تھے۔

🌍 اُس دور میں ماسٹر اگر بچے کو مارتا تھا تو بچہ گھر آکر اپنے باپ کو نہیں بتاتا تھا، اور اگر بتاتا تھا تو باپ اُسے ایک اور تھپڑ رسید کردیتا تھا ....!! یہ وہ دور تھا جب ”اکیڈمی“کا کوئی تصور نہ تھا، ٹیوشن پڑھنے والے بچے نکمے شمار ہوتے تھے .....!! بڑے بھائیوں کے کپڑے چھوٹے بھائیوں کے استعمال میں آتے تھے اور یہ کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی تھی.......!!۔ لڑائی کے موقع پر کوئی ہتھیار  نہیں نکالتا تھا، صرف اتنا کہنا کافی ہوتا تھا کہ ” میں تمہارے ابا جی سے شکایت کروں گا  ،،۔ یہ سنتے ہی اکثر مخالف فریق کا خون خشک ہوجاتا تھا۔......!! اُس وقت کے اباجی بھی کمال کے تھے، صبح سویرے فجر کے وقت کڑکدار آواز میں سب کو نماز کے لیے اٹھا دیا کرتے تھے۔بے طلب عبادتیں ہر گھرکا معمول تھیں۔......!! کسی گھر میں مہمان آجاتا تو اِردگرد کے ہمسائے حسرت بھری نظروں سے اُس گھر کودیکھنے لگتے اور فرمائشیں کی جاتیں کہ ” مہمانوں “ کو ہمارے گھر بھی لے کرآئیں۔جس گھر میں مہمان آتا تھا وہاں پیٹی میں رکھے، فینائل کی خوشبو میںلبے بستر نکالے جاتے ، خوش آمدید اور شعروں کی کڑھائی والے تکئے رکھے جاتے ،...

جل کر مرنے والوں کے لواحقین کا نواب سر صادق محمد عباسی مرحوم کے نام خط

نواب سر صادق محمد  عباسی مرحوم کے نام خط   السلام علیکم نواب صاحب  امید ھے آپ جنت میں بیٹھے اپنے 158  بیٹے بیٹیوں کو جنت میں خوش آمدید کر نے کے لئے بے تاب ہونگے کیونکہ آپ کو اپنی رعایا اپنی اولاد کی طرح عزیز تھی آپ کو بھی آج سکون نہیں ھوگا آپ اپنے پاس آنے والے اپنے بیٹے بیٹیوں کو تو سنبھا ل لوگے ان کو سینے کے ساتھ بھی لگا لوگے ان کو جنت کی سیر بھی کرا لوگے ان کے تھکے چہروں کو دیکھ کے فرشتوں سے خوب خدمت بھی کرا لوگے اور مجھے پتا ھے آج آپ خود اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک آپکے بیٹے بیٹیاں چین و سکوں میں نہیں آجاتی ھونگی آ پ کو غصہ بھی ھوگا کہ آپکی دنیا کی امیر ترین ریاست بہاول پور کی رعایا کے ساتھ یہ کیا ہو گیا , یہ تو ہیں اوپر کی باتیں  مگر نواب صاحب ھم زمین بہاول پور پر بسنے والے کہاں جائیں ھم مر گئے   ھم جل گئے ھماری لاشوں کو لالچ کا طعنہ دے کر سب نے منہ پھیر لیا نواب صاحب کون انکو بتائے گا  ھم کہاں کے لالچی ہیں نواب صاحب انکو کون بتائے گا آپ نے تو اعلان کیا تھا آجاؤ لےاسٹامپ پیپر لے آؤ مجھ سے زمینں لے لو انک...