Skip to main content

Posts

گزرا زمانہ اچھا تھا۔ جب بچے بڑوں کو، بڑا سمجھتے تھے۔

🌍 اُس دور میں ماسٹر اگر بچے کو مارتا تھا تو بچہ گھر آکر اپنے باپ کو نہیں بتاتا تھا، اور اگر بتاتا تھا تو باپ اُسے ایک اور تھپڑ رسید کردیتا تھا ....!! یہ وہ دور تھا جب ”اکیڈمی“کا کوئی تصور نہ تھا، ٹیوشن پڑھنے والے بچے نکمے شمار ہوتے تھے .....!! بڑے بھائیوں کے کپڑے چھوٹے بھائیوں کے استعمال میں آتے تھے اور یہ کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی تھی.......!!۔ لڑائی کے موقع پر کوئی ہتھیار  نہیں نکالتا تھا، صرف اتنا کہنا کافی ہوتا تھا کہ ” میں تمہارے ابا جی سے شکایت کروں گا  ،،۔ یہ سنتے ہی اکثر مخالف فریق کا خون خشک ہوجاتا تھا۔......!! اُس وقت کے اباجی بھی کمال کے تھے، صبح سویرے فجر کے وقت کڑکدار آواز میں سب کو نماز کے لیے اٹھا دیا کرتے تھے۔بے طلب عبادتیں ہر گھرکا معمول تھیں۔......!! کسی گھر میں مہمان آجاتا تو اِردگرد کے ہمسائے حسرت بھری نظروں سے اُس گھر کودیکھنے لگتے اور فرمائشیں کی جاتیں کہ ” مہمانوں “ کو ہمارے گھر بھی لے کرآئیں۔جس گھر میں مہمان آتا تھا وہاں پیٹی میں رکھے، فینائل کی خوشبو میںلبے بستر نکالے جاتے ، خوش آمدید اور شعروں کی کڑھائی والے تکئے رکھے جاتے ،...

جل کر مرنے والوں کے لواحقین کا نواب سر صادق محمد عباسی مرحوم کے نام خط

نواب سر صادق محمد  عباسی مرحوم کے نام خط   السلام علیکم نواب صاحب  امید ھے آپ جنت میں بیٹھے اپنے 158  بیٹے بیٹیوں کو جنت میں خوش آمدید کر نے کے لئے بے تاب ہونگے کیونکہ آپ کو اپنی رعایا اپنی اولاد کی طرح عزیز تھی آپ کو بھی آج سکون نہیں ھوگا آپ اپنے پاس آنے والے اپنے بیٹے بیٹیوں کو تو سنبھا ل لوگے ان کو سینے کے ساتھ بھی لگا لوگے ان کو جنت کی سیر بھی کرا لوگے ان کے تھکے چہروں کو دیکھ کے فرشتوں سے خوب خدمت بھی کرا لوگے اور مجھے پتا ھے آج آپ خود اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک آپکے بیٹے بیٹیاں چین و سکوں میں نہیں آجاتی ھونگی آ پ کو غصہ بھی ھوگا کہ آپکی دنیا کی امیر ترین ریاست بہاول پور کی رعایا کے ساتھ یہ کیا ہو گیا , یہ تو ہیں اوپر کی باتیں  مگر نواب صاحب ھم زمین بہاول پور پر بسنے والے کہاں جائیں ھم مر گئے   ھم جل گئے ھماری لاشوں کو لالچ کا طعنہ دے کر سب نے منہ پھیر لیا نواب صاحب کون انکو بتائے گا  ھم کہاں کے لالچی ہیں نواب صاحب انکو کون بتائے گا آپ نے تو اعلان کیا تھا آجاؤ لےاسٹامپ پیپر لے آؤ مجھ سے زمینں لے لو انک...

جب پادری نے ایک مسلمان عورت کو سلام بیجھا اور عورت نے اس سے آٹا پسوایا۔

. ایک بہت ہی خوبصورت مسلمان خاتون تھی. اپنے بیٹے کو پاس کے انگلش سکول میں پادری سے انگلش سیکھنے کے لئے بھرتی کروا آئی ... . انگلش پڑھانے والاپادری اس عورت کی خوبصورتی کے بارے میں جانتا تھا. چھٹی کے وقت پادری   نے اس کے بیٹے سے کہا: اپنی امی کو میرا سلام کہنا .... . بیٹے نے آکر ماں کو کہہ دیا کہ پادری صاحب نے آپ کو سلام بھیجا ہے خاتون نے بھی بیٹے کے ہاتھوں سلام کا جواب سلام بھیج کر دے دیا. یہ سلسلہ ہفتے بھر چلا ... . خاتون نے "شوہر" سے مشورہ کیا اور اگلے دن بیٹے سے پادری  کو کہلوایا کہ امی نے "شام کو گھر پر بلایا ہے" ... پادری بہت خوش ہوا۔ کئی دن سے نہایا نہیں تھا اس نے خّوشبو لگائی .  اور پہنچ گیا اس عورت کے گھر .. خاتون نے پہلے اوبھگت کی، چائے ناشتہ کروایا، پھر، بیٹے کی تعلیم کے بارے میں معلومات لی. . پادری رسمی باتیں کرنے کے بعد، اپنی اصلیت پہ آیا، کہا: ، آپ کو گاڈ نے بڑی فرصت میں تراشا ہے - لیڈی: "وہ تو ہے، شکریہ" پادری : مجھے آپ سے عشق ہو گیا ہے محترمہ ... خاتون ؛ جی ہاں وہ تو ہے، پر یہ بات اگر میرے شوہر نے سن ...

کیا آپ جانتے ہیں سیل کے کتنے مطلب ہیں۔

کاپی

چین کے وزیر اعظم چون لی پاکستانی کی فیکڑی دیکھنے کے آئے اور اس ماڈل سے چین میں انقلاب لے آئے

والد نے ان کا نام محمد لطیف رکھا‘ وہ بڑے ہو کر چودھری محمد لطیف ہو گئے لیکن دنیا انہیں ”سی ایم لطیف“ کے نام سے جانتی تھی‘ وہ پاکستان کے پہلے وژنری انڈسٹریلسٹ تھے اور انڈسٹریلسٹ بھی ایسے کہ چین کے وزیراعظم چو این لائی‘ شام کے بادشاہ حافظ الاسد اور تھائی لینڈ کے بادشاہ ان کی فیکٹری دیکھنے کیلئے لاہور آتے تھے‘ چو این لائی ان کی فیکٹری‘ ان کے بزنس ماڈل اور ان کے انتظامی اصولوں کے باقاعدہ نقشے بنوا کر چین لے کر گئے اور وہاں اس ماڈل پر فیکٹریاں لگوائیں‘ سی ایم لطیف کی مہارت سے شام‘ تھائی لینڈ‘ ملائیشیا اور جرمنی تک نے فائدہ اٹھایا‘ وہ حقیقتاً ایک وژنری بزنس مین تھے‘ وہ مشرقی پنجاب کی تحصیل بٹالہ میں پیدا ہوئے‘ والد مہر میران بخش اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتے تھے لیکن وہ لطیف صاحب کے بچپن میں فوت ہو گئے‘ لطیف صاحب نے والد کی خواہش کے مطابق اعلیٰ تعلیم حاصل کی‘ یہ 1930ء میں مکینیکل انجینئر بنے اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے دو کمروں اور ایک ورانڈے میں اپنی پہلی مل لگائی‘ یہ صابن بناتے تھے‘ان کے چھوٹے بھائی محمد صدیق چودھری بھی ان کے ساتھ تھے‘ صدیق صاحب نے بعد ازاں نیوی جوائن...

باپ کی بات سن کر ٹرین میں سناٹا چھا گیا۔

باپ چار بچوں کے ساتھ ٹرین میں سوار ہوا، ایک سیٹ پرخاموشی سے بیٹھ گیا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا بچے؟ بچے نہیں آفت کے پرکالے تھے۔ انہوں نے ٹرین چلتے ہی آسمان سر پر اٹھا لیا کوئی اوپر کی سیٹوں پر چڑھ رہا ہے ،تو کسی نے مسافروں کا سامان چھیڑنا شروع کر دیا کوئی چچا میاں کی ٹوپی اتار کر بھاگ رہا ہے تو کوئی زور زور سے چیخ کر آسمان سر پر اٹھا رہا ہے مسافر سخت غصے میں ہیں کیسا باپ ہے ؟ نہ انہیں منع کرتا ہے نہ کچھ کہتا ہے کوئی اسے بے حس سمجھ رہا ہے تو کسی کے خیال میں وہ نہایت نکما ہے بلآخر جب برداشت کی حد ہو گئی تو ایک صاحب غصے سے اٹھ کر باپ کے پاس پہنچے اور ڈھاڑ کر بولے "آپ کے بچے ہیں یا مصیبت ؟ آخر آپ ان کو ڈانٹتے کیوں نہیں؟ باپ نے ان صاحب کی طرف دیکھا اس کی آنکھیں آنسووں سے لبریز تھیں اور بولا 'آج صبح ان کی ماں کا انتقال ہو گیا ہے میں ان کو وہیں لے کر جا رہا ہوں۔ مجھ میں ہمت نہیں کہ ان کو کچھ کہہ سکوں۔ آپ روک سکتے ہیں تو روک لیں ۔۔۔۔۔۔ سارے مسافرایک دم سناٹے میں آ گئے۔۔۔ ایک ہی لمحے میں منظر بالکل بدل چکا تھا وہ شرارتی بچے سب کو پیارے لگنے لگے...

حکومت عزت کا ڈی این ایے کیسے کرے گی

قومی شاہراہ پر ٹریفک رواں دواں تھا‘ اچانک ٹائر پھٹنے کی آواز آئی‘ ٹینکر کے بریک چرچرائے اور وہ بد مست ہاتھی کی طرح لہراتا ہوا پلٹ گیا۔ حادثے کے سبب ٹینکر سے آئل بہنے لگا۔ موٹر وے پولیس چند لمحوں میں جائے حادثہ پہنچ گئی۔ ابھی ریسکیو آپریشن شروع ہی کیا تھا کہ قریبی باغ میں کام کرنے والے مزدور اور ہائی وے سے ملحقہ بستی کے مزدور جائے حادثہ پر پہنچ گئے۔ غربت سب کے چہرے سے عیاں تھی۔ فاقے سب کے ماتھے پر رقم تھے۔ انہوں نے انتہائی بے ہنگم طریقے سے پٹرول جمع کرنا شروع کردیا۔ کرنا کیا تھا اس سے، کیا کسی حاکم کے محل کو آگ لگانی تھی۔ نہیں ہرگز نہیں، مقصد بس یہ کہ ایک حادثے سے چند روپوں کی آسانی کشید کرلی جائے تاکہ کچھ روپوں کا حصول ہو اور عید پر بچوں اور اپنےلئے خوشیاں خرید سکیں۔ میں نے پنجاب میں موٹر وے پولیس کو متحرک طریقے سے کام کرتے دیکھا ہے، وہ کہہ رہے ہیں (اور یقیناً ٹھیک کہہ رہے ہوں گے) کہ انہوں نے ان غریبوں کے تیل کی اس بہتی دولت سے دور ہٹانے کی کوشش کی، یقیناً کی ہوگی۔ وہ بتاتے رہے کہ یہ خطرناک ہے۔ لیکن غربت جن کے ماتھے پر رقم تھی انہوں نے ایک نہ سنی۔ اچانک بدمست ہا...